شاعرانہ روح( دیوان ذیشان علی )
باب اول
عشقِ ناداں رنگین زاداں
کبھی کسی شب کے آ خری پہر میں آ جانا
بڑی مدت سے دل میں لے ھوے ھوں اک ذوق
جاناں
آخر معلوم تو ہے تم کو بھی ہمارا شوق
جام ہم پلائیں گے نشہ تم چڑھنا
صبح و میں آسماں کی سمت دیکھتے ہوے شعر کا اک مصرع لکھتا ہوں اور پھر یہ خواہش کر تا ہوں
کے کاش یہ اڑتی چڑیاں سن لیں یہ شعر میرا
اور اڑتی ہوئی پہنچ جائیں تجھ تک اور پیغام پہنچا دیں
تجھ کو یہ میرا
کہ میں تجھ کو پانے کی آرزو کرتا ہوں
دیکھوں تو جی چاہتا ہے کہ تجھ سے نظر نہ ہٹاوں
بالوں کوتوں نے کیا خوب سنوارا
اورجسم تیرا اف یہ پیارا
روکے تو ہوے ہوں خود کو پر جی تو چاہتا ہے کہ تیرے پاس میں آؤں
میری جاں میری جاں
تجھ کو میں اس قدر پیار دوں
کہ
تیرا لباس تیرے جسم سے اتار دوں
اور
میرا جسم تحفے میں ،میں تجھ کو میرے
یاردوں
دیکھوں جو تجھ کو ہوامیں بن بناتے
تو جی چاہے، میں بھی ہو جاؤ ں آوارا
ہنسی سے توں جو کھلے مسکراتے
تو جی چاہے کہ چھوڑ دوں یہ زمانہ سارا
کیا عجب ہے تیری زلفوں کا اندھیرا
تیرے نینقش کی بنا وٹ نے میری عقل کو گرفت میں لیا
سمجھ نہیں آتی ان قاتلانہ آنکھوں پر کیوں کر ہے کاجل کایہ گھیرا
Comments
Post a Comment